Arsh Haq Hai Masnad e Rif’at Rasoolullah ﷺ Ki Naat Lyrics

Arsh Haq Hai Masnad e Rif’at Rasoolullah ﷺ Ki Naat Lyrics

 

Arshe Haq Hai Masnade Rifat Rasolullah Ki Lyrics

Arshe Haq Hai Masnade Rif’At Rasoolullah ﷺ Ki,
Dekhni Hai Hashr Me Izzat Rasoolullah ﷺ Ki.

Qabr Me Leraayenge Ta Hasr Chashme Noor Ke

Jalwah Farma Hogi Jab Tal’At Rasoolullah ﷺ Ki

Laawarabbil Arsh Jisko Jo Mila Unse Mila

Bat’Ti He Kownain Me Ne’Mat Rasoolullah ﷺ Ki

Arshe Haq Hai Masnade Rifat Rasoolullah Ki Lyrics

Wo Jahannum Me Gayajo Unse Mustaghni Huwa

Hai Khalleelullah Ko Haajat Rasoolullah ﷺ Ki

Sooraj Ulthe Paaw Palthe Chaand Ishaare Se Ho Chaak

Andhe Najdi Dekhle Qudrat Rasoolullah ﷺ Ki

Tujhse Aur Jannat Se Kya Matlab Wahabi Door Ho

Hum Rasoolullah Ke, Jannat Rasoolullah ﷺ Ki

Zikr Roke Fazl Kaate Naqs Ka Juyaa’n Rahe,

Fir Kahe Mardak Ke Hun Umamt Rasoolullah ﷺ Ki

Arshe Haq Hai Masnade Rifat Rasoolullah Ki Lyrics

Najdi Usne Mohlat Did Ki Is Aa’lam Me Hai,

Kafiro Murtad Pe Bhi Rahmat Rasoolullah ﷺ Ki.

Hum Bhikaari Wo Kareem, Unka Khudaa Unse Fizoo

Aur Naa Kehna Nahee Aadat Rasoolullah ﷺ Ki

Arshe Haq Hai Masnade Rifat Rasoolullah Ki Lyrics

Ahle Sunnat Ka He Bera Paar Ashaabe Rasool

Najm He Aur Naav Hai Itrat Rasoolullah ﷺ Ki

Khaak Ho Kar Ishq Me Aaram Se Sona Mila,

Jaan ki Ekseer Hai Ulfat Rasoolullah ﷺ Ki.

Toot Jaayenge Gunaahgaro Ke Fawran Qaid-O-Bund

Hashr Ko Khuljaaegi Taaqat Rasoolullah ﷺ Ki

Ya Rabb Ik Saa’At Me Dhul Jaa-E Siyaahkaro Ke Jurm

Josh Par Aajaaye Ab Rehmat Rasoolullah ﷺ Ki

Arshe Haq Hai Masnade Rifat Rasoolullah Ki Lyrics

Hai Gule Baage Qudus Rukhsaare Zaiba e Huzoor,

Sarwe Gulzare Qidam Qamat Rasoolullah ﷺ Ki.

Ae Raza Khud Saahibe Quraan Hai Mud’Daahe Huzoor

Tujhse Kab Mumkin He Phir Midhat Rasoolullah ﷺ Ki
Arshe Haq Hai Masnade Rif’at Rasoolallah ﷺ Ki Lyrics In Hindi

अर्श हक़ है मसनद ए रिफ’अत रसूलुल्लाह ﷺ की,

देखनी है हश्र में इज्ज़त रसूलुल्लाह ﷺ की

क़ब्र में लहराएंगे ता हश्र चश्मे नूर के,

जलवा फरमा होगी कब तल ‘अत रसूलुल्लाह ﷺ की

लावा रब्बिल अर्श जिसको जो मिला उनसे मिला ,

बटती है को नैन में ने’ मत रसूलुल्लाह ﷺ की

वो जहन्नम में गया जो उनसे मुस्तग्नि हुआ,

है खलीलुल्लाह को हाजत रसूलुल्लाह ﷺ की

सूरज उल्टे पांव पलटे चांद इशारे से हो चाक ,

अंधे नज्दी देख ले कुदरत रसूलुल्लाह ﷺ की

तुझसे और जन्नत से क्या मतलब वहाबी दूर हो,

हम रसूलुल्लाह ﷺ के जन्नत रसूलुल्लाह ﷺ की

ज़िक्र रोके फज्ल काटे नक्स का जुया रहे ,

फिर कहे मरदक के हूं उम्मत रसूलुल्लाह ﷺ की

नजदी उसने तुझको मोहलत दी की इस आलम में है

काफिरों मुर्तद पे भी रहमत रसूलुल्लाह ﷺ की

 

हम भिकारी वो करीम उनका खुदा उनसे फजू,

और न कहना नहीं आदत रसूलुल्लाह ﷺ की

अहले सुन्नत का है बेड़ा पार अस हाबे हुज़ूर,

नज्म है और नाव है इतरत रसूलुल्लाह ﷺ की

ख़ाक हो कर इश्क में आराम से सोना मिला,

जान की एकसीर है उल्फत रसूलुल्लाह ﷺ की

टूट जाएंगे गुनाहगारों के फौरन कैदो बंद ,

हश्र को खुल जायेगी ताक़त रसूलुल्लाह ﷺ की

या रब एक सा’ अत में धूल जाएं सियाहकारो के जुर्म,

जोश में आ जाए अब रहमत रसूलुल्लाह ﷺ की

है गुले बागे कुदुस रूख सार ए जैबा ए हुज़ूर,

सर्वे गुलजारे किदम क़ामत रसूलुल्लाह ﷺ की

ऐ रज़ा खुद साहिबे कुरआन है मद्दाहे हुज़ूर,

तुझ से कब मुम्कन है फिर मीदहत रसूलुल्लाह ﷺ की
Arsh Haq Hai Masnad e Rif’at Rasoolullah ﷺ Ki Naat Lyrics In Urdu

عرشِ حق ہے مسندِ رِفعت رسول اللہ کی

دیکھنی ہے حشر میں عزّت رسول اللہ کی

قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نُور کے

جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی

کافروں پر تیغِ والا سے گِری برقِ غضب

اَبر آسا چھا گئی ہیبت رسول اللہ کی

لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو مِلا ان سے ملا

بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی

وہ جہنم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہوا

ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی

سُورج اُلٹے پاؤں پلٹے چاند اِشارے سے ہو چاک

اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہ کی

تجھ سے اور جنّت سے کیا مطلب وہابی دُور ہو

ہم رسول اللہ کے جنّت رسول اللہ کی

ذِکر روکے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے

پھر کہے مردک کہ ہوں امّت رسول اللہ کی

نجدی اُس نے تجھ کو مہلت دی کہ اس عالم میں ہے

کافر و مرتَد پہ بھی رحمت رسول اللہ کی

ہم بھکاری وہ کریم اُن کا خدا اُن سے فُزُوں

اور نا کہنا نہیں عادت رسول اللہ کی

اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا مِلا

جان کی اِکسیر ہے اُلفت رسول اللہ کی

ٹُوٹ جائیں گے گنہگاروں کے فوراً قید و بند

حشر کو کھل جائے گی طاقت رسول اللہ کی

یاربّ اِک ساعت میں دُھل جائیں سیہ کاروں کے جرم

جوش میں آجائے اب رحمت رسول اللہ کی

ہے گل باغ قُدُس رُخسارِ زَیبائے حضور!

سر وِ گلزارِ قدم قامت رسول اللہ کی

اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مَدَّاحِ حضور

تجھ سے کب ممکن ہے پھر مِدحت رسول اللہ کی

 

ناموسِ رسالتﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند
> (علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں)
قسط-1

غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن، مالیگاؤں

   کیا کوئی مسلمان یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ کوئی مسلمان کہلانے والا شخص رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین اور بے ادبی کی جرأت کرے گا- لیکن! یہ بھی حقیقت ہے کہ توہین رسالت کے مرتکبین کی ایک طویل فہرست ہے جو بظاہر کلمہ گو تھے، نام و شباہت مسلمانوں کی سی تھی؛ لیکن اُن کے قلم و زبان نے گستاخی و توہین کی مسموم فضا پیدا کی، مسلمانوں کے قلب و روح کو توہین کے تیروں سے زخمی کیا۔ عقائد اسلامی کی فصیل میں توہین کی سرنگیں لگائیں۔ وہابیت، دیوبندیت و قادیانیت اسی توہین و بے ادبی کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے۔
  مسلمان نبی پاک ﷺ سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے۔ یہ وہ جذبۂ صادق ہے جس کی بنیاد پر عاشقانِ رسول نے تاریک و بنجر وادیوں میں محبت و اُلفت کی فصلیں اُگائیں۔ اِسی جذبۂ محبت نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قیصر و کسریٰ جیسی سُپر پاورز پر غلبہ عطا کیا۔ یہی جذبۂ محبت تھا جس کے دوش پر یورپ کی وادیوں میں اذانِ سحر گونج گونج اُٹھی۔ ایثار کی ہر بزم محبت رسول ﷺ سے عطر بیز ہے۔ محبتوں کی اسی روش نے سلفِ صالحین کو بلندیاں عطا کیں۔ آج جو نغماتِ دُرود وسلام بلند ہو رہے ہیں وہ اظہارِ محبت کے والہانہ نظارے ہیں۔ آج ہر بزمِ محبت رسول ﷺ میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنّت کا تحریر کردہ یہ نغمۂ روح یوں ہی نہیں گونج رہا ہے؎
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
   جس نے محبتوں کی جوت جگائی، جس نے عشقِ رسول ﷺ سے دلوں کو بھر دیا۔ جس نے ہمیشہ اپنے قلم کو مدحتِ مصطفیٰ ﷺ میں چلایا۔ جس نے جو کچھ لکھا ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے لکھا؛ اس کا قلم اُن لوگوں پر بھی چلا جنھوں نے ناموسِ رسالت ﷺ کے قصرِ رفیع میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی۔ علم و تحقیق اور آگہی کی روشنی میں اعلیٰ حضرت کی تصانیف کا مطالعہ کیجیے، کتاب و سنت سے ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ میں وہ وہ دلائل ملیں گے کہ ایمان تازہ ہو جائے گا۔ گلشنِ حیات میں محبتوں کی بادِ خوش گوار صاف محسوس ہوگی۔
  عصمتِ انبیا علیہم السلام کا عقیدہ مُسلّم رہا ہے۔ اس عقیدے میں کسی بھی طرح کی کجی ایمان کے عظیم مینار کو زمیں بوس کر سکتی ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی و متانت کی عینک لگا کر اِس عبارت کو پڑھیے اور بتائیے کہ کیا یہ اُس دل کی زبان ہو سکتی ہے جس میں محبت رسول ﷺ کا ذرہ برابر نشان موجود ہو:
   ’’یہی وہ دن (عاشورہ) ہے جس میں حق تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے-‘‘
* (ڈسپلن ڈیلی مالیگاؤں، ۹؍جولائی۲۰۲۴ء، صفحہ۲، از مولانا سراج احمد قاسمی)
    للہ! انصاف کے ساتھ بتائیے یہ جرأت و جسارت معمولی ہے کہ جھٹ رسول اللہ ﷺ کے لیے ’’گناہ‘‘ کا داغ گڑھ لیا۔ کیا یہ دل کا داغ نہیں جو لفظوں کے لباس میں ظاہر ہوا؟ یہاں یہ نکات حاشیۂ ذہن پر اُبھرتے ہیں:
(۱) شاید یہ الفاظ اتفاقاً منصۂ شہود پر آئے ہوں؛ لکھنے والے کا مطمح نظر رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی و توہین نہ رہا ہو!!
(۲)مذکورہ جملہ میں گناہ کا انتساب رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں بہت بڑی جسارت ہے۔ایک سوال یہ ہے کہ پھر یہ جرأت کیوں کی گئی۔ اِس طرح کا خیال قلم کار کے دل و دماغ میں کیوں کر آیا؟ پس پشت کیا محرکات تھے؟
  اول الذکر پر جب غور کیا گیا تویہ ضرورت محسوس ہوئی کہ قلم کار کے فکری رشتے کو ٹٹولنا چاہیے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ بزمِ دل میں محبتوں کی کوئی شمع فروزاں ہے یا نہیں!یہ دیکھناچاہیے کہ مذکورہ عبارت قلمی سہو کا نتیجہ ہے یا قصد و ارادہ سے وجود میں آئی!!
  ثانی الذکر کا نتیجہ فکری رشتے کی اکابرِ دیوبند سے استواری نکلا۔
  بہر کیف! جب خیالات کی وادیاں دلائل کی روشنی میں تلاشی گئیں، افکار کے رشتےکتابوں کے سائے میں ڈھونڈے گئے، غیر جانب دارانہ انداز میں حقائق کو دیکھا پرکھا گیا؛ سُنی سُنائی باتوں کے بجائے تحقیق و تدقیق کی گہرائی و گیرائی میں اُتر کر مشاہدہ کیا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ: قلم کار کا رشتۂ فکر علماے دیوبند سے ملتا ہے جن کے اکابر کی توہین رسالت ﷺ سے پُر عبارتوں سے مسلمانوں کے دل لہولہان ہیں۔ جن کی تحریروں نے اسلام کے قصرِ رفیع میں شگاف ڈالنے کی کوششیں کیں۔ جن کی کتابیں رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیوں سے بھری پڑی ہیں۔ جن پر عثمانی دور کے علماے حرمین طیبین نے فتاوے صادر فرمائے۔ بے ادبی سے پُر عبارتوں پر حکم شرعی عائد کیے۔ نگہِ تحقیق جب گستاخانہ عبارتوں کو پڑھتی ہے اور ان عبارتوں پر بیان کیے گئے حکم کو دیکھتی ہے تو یہ تسلیم کرتی ہے کہ جب گستاخی کی قلمیں لگائی جائیں گی، توہین کی جرأتیں کی جائیں گی تو پھر حکم بھی سخت عائد ہوگا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: حسام الحرمین، از اعلیٰ حضرت، زلزلہ از علامہ ارشدالقادری، دعوت انصاف از علامہ ارشد القادری)

شانِ رسالت ﷺ میں توہین کا آغاز:
ہند میں وہابیت دیوبندیت کے نقطۂ آغاز سے متعلق شاہ ابوالحسن زید فاروقی دہلوی لکھتے ہیں:
’’حضرت مجدد(الف ثانی) کے زمانے سے ۱۲۴۰ھ (۱۸۲۵ء) تک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے۔ ایک اہل سنت و جماعت، دوسرے شیعہ۔
اب مولانا اسمٰعیل دہلوی کا ظہور ہوا۔ وہ شاہ ولی اللہ کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے بھتیجے تھے۔ ان کا میلان محمد بن عبد الوہاب نجدی کی طرف ہوا۔اور نجدی کا رسالہ ردالاشراک ان کی نظر سے گزرا۔ اور اردو میں انھوں نے’تقویۃ الایمان‘ لکھی۔ اس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا۔کوئی غیر مقلدہوا، کوئی وہابی بنا، کوئی اہلِ حدیث کہلایا، کسی نے اپنے کو سلفی کہا۔
ائمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا وہ ختم ہوا، معمولی نوشت و خواند کے افراد امام بننے لگے، اور افسوس اس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہِ نبوت کی تعظیم و احترام میں تقصیرات (بے ادبی و توہین) کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ یہ ساری قباحتیں ماہ ربیع الآخر ۱۲۴۰ھ (۱۸۲۵ء) کے بعد سے ظاہر ہونی شروع ہوئی ہیں۔‘‘
* (مولانا اسمٰعیل دہلوی اور تقویۃ الایمان،ص۹،ازشاہ ابوالحسن زید دہلوی ،شاہ ابوالخیر اکیڈمی دہلی)
قارئین! ’’توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہِ نبوت ﷺ کی تعظیم و احترام میں تقصیرات (بے ادبی و توہین) کا سلسلہ‘‘ جو شروع ہوا تھا؛ وہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا ہے- مالیگاؤں کے اخبار ڈسپلن میں جو توہینِ رسالت کا ارتکاب (٩ جولائی ٢٠٢٤ء کو) ہوا وہ اسی سلسلے و فکر کی ایک کڑی ہے- لگے ہاتھ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے زیر اثر ’’وہابیت‘‘ سے متعلق دیوبندی رائے کیا ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے یہ اقوال دیکھیں:
’’اس وقت اور ان اطراف میں ’’وہابی‘‘ متبعِ سنت اوردین دار کو کہتے ہیں۔‘‘
* (فتاویٰ رشیدیہ،مولانا رشید احمد گنگوہی، فرید بک ڈپو دہلی، س ن، ص۱۱۰)
’’محمد بن عبدالوہاب کو لوگ وہابی کہتے ہیں وہ اچھا آدمی تھا۔‘‘
’’محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے۔‘‘
* (مرجع سابق، ص۲۸۰)
دیوبندی فرقہ کے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: ’’بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں یہاں فاتحہ نیاز کے لئے کچھ مت لایا کرو ۔‘‘
* (اشرف السوانح، جلد ۱/ ص۴۵ )
یہی صاحب فرماتے ہیں: ’’اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں۔‘‘
* (الافاضات الیومیہ جلد ۵/۶۷, ۲/۲۲۱)
تبلیغی جماعت کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کے مصنف زکریا کاندھلوی کا اعتراف: ’’مولوی صاحب ! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں۔‘‘
* (سوانح یوسف کاندھلوی، صفحہ نمبر ۱۹۳)
قارئین! آپ نے اکابرِ دیوبند کے مستند علما کی رائے ملاحظہ کی۔ کئی اور اقتباسات بھی ایسے ملتے ہیں جن میں دیوبندی علما نے ’وہابی‘ ہونے کا اقرار کیا ہے؛ وہابیت کی تعریف میں اپنی زبانیں تر کیں۔
***
(جاری…..)

 

ناموسِ رسالتﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند
> (علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں)
قسط-2

غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن، مالیگاؤں

نبی اکرم ﷺ کی محبت اور وہابیت کی صحبت:
اب ذرا دل تھام رکھ کر وہابیت کی صحبت کے اعتقادی نقصانات بھی ایسے بزرگ کے قلم سے پڑھ لیں؛ جنھیں دیابنہ کا بڑا حلقہ اپنے سلسلۂ طریقت کا اہم ستون مانتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی کی نسل سے حضرت شاہ احمد سعید مجددی کے فرزند گرامی حضرت شاہ محمد مظہر نقشبندی مجددی مہاجر مدنی فرماتے ہیں:
ولم یذکراحدابالسوء الاالفرقۃالضالۃ الوہابیۃ لتحذیرالناس من قباحۃ افعالھم واقوالھم
  پھر اسی صفحہ پر حاشیہ میں لکھتے ہیں: وکان قدس سرہ یقول ادنی ضررصحبتھم ان محبۃالنبی صلی اللہ علیہ وسلم التی ھی من اعظم ارکان الایمان تنقص ساعۃ فساعۃحتی لایبقٰی منھا غیر الاسم والرسم فکیف یکون اعلاہ فالحذر الحذر عن صحبتہم ثم الحذر الحذر عن رؤیتھم ۔اہ فاحفظہ (منہ)
  حضرت شاہ احمد سعید قدس سرہٗ کسی کی برائی نہیں کرتے تھے سواے وہابیہ کے گم راہ فرقہ کے، تاکہ لوگوں کو ان کے افعال واقوال کی قباحت سے ڈرائیں، حضرت فرمایا کرتے تھے کہ وہابیوں کی صحبت کا معمولی نقصان یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت جو ایمان کے بڑے ارکان میں سے ہے، لحظہ بہ لحظہ کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نام ونشان کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا، جب معمولی ضَرر کا یہ حال ہے تو بڑے نقصان کا کیا عالَم ہوگا؟ لہٰذا ان کی صحبت سے بچو، ضرور بچو، بلکہ ان کی صورت تک دیکھنے سے ضرور بالضرور اجتناب کرو۔
* (المناقب الاحمدیہ والمقامات السعیدیہ، محمد مظہر مہاجر مدنی، مطبوعہ قزان ۱۸۹۶ء، ص ۱۷۶- تحقیق الفتویٰ، مقدمہ از علامہ عبدالحکیم شرف قادری، المجمع الاسلامی مبارک پور ۱۴۲۵ھ/ ۲۰۰۴ء،ص۳۵۔۳۶)
  آج کل پیری مریدی میں دیوبندی فرقہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے، جن میں ایک بڑا طبقہ اپنا شجرۂ طریقت حضرت شاہ احمد سعید مجددی سے جوڑتا ہے، حضرت شاہ احمد سعید مجددی کا یہ جملہ دیابنہ کو بار بار پڑھنا چاہیے اور خود کو ٹٹولنا چاہیے کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں؛ جہاں توہین رسالت ﷺکے بڑے بڑے طوق ان کے اکابر کی گردنوں میں پڑے ہوئے ہیں:
  ’’ وہابیوں کی صحبت کا معمولی نقصان یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت جوایمان کے بڑے ارکان میں سے ہے، لحظہ بہ لحظہ کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نام ونشان کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔‘‘ (نفس مصدر)
  وہابیت کی صحبت کا نقصان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کم ہو جاتی ہے بلکہ ختم ہو جاتی ہے، پھر جھولی میں توہین ہی بچتی ہے، جہاں محبت رسول ﷺ کا نام و نشان نہیں ہوگا وہاں ’’ناموسِ رسالتﷺ‘‘ میں بے ادبی و گستاخی کا ارتکاب جائے تعجب نہیں۔ یہی کچھ ڈسپلن ڈیلی مالیگاؤں، ۹ ؍جولائی۲۰۲۴ء کے صفحہ۲ پر مولانا سراج احمد قاسمی نے کیا اور رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ ناز میں ’’گناہ‘‘ کا انتساب کیا۔
  بوئے توہین کہاں سے آئی؟ اِس کے جواب میں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ جناب میثم عباس قادری کے نشان زد چند حوالے درج کر دیے جائیں۔ موصوف لکھتے ہیں:
عصمت انبیا علیہم السلام کے متعلق مولوی اسماعیل دہلوی صاحب کے ہم خیال علما کے عقائد مختصراً ملاحظہ کریں تاکہ ان کے باطل عقائد قارئین پر واضح ہو جائیں۔
  مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی صاحب انبیاے کرام کو صریح جھوٹ بولنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
  ’’دروغ صریح (صاف جھوٹ) بھی کئی طرح پر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کا حکم یکساں نہیں اور ہر قسم (کے جھوٹ) سے نبی کو معصوم ہونا ضرور نہیں۔‘‘
* (تصفیۃ العقائد ،صفحہ ۲۲، مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارن پور، ایضاً ،صفحہ ۲۵، مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار ،کراچی)
  اس کے بعد مزید لکھتے ہیں کہ:
  ’’بالجملہ علی العموم کذب (جھوٹ) کو منافی شانِ نبوت (شانِ نبوت کے خلاف) بایں معنی (اس طرح) سمجھنا کہ یہ معصیت (گناہ) ہے اور انبیاے کرام معاصی (گناہوں) سے معصوم ہیں خالی غلطی سے نہیں۔‘‘
* (تصفیۃ العقائد، صفحہ ۲۴، مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارن پور، ایضاً، مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار ،کراچی)
  یعنی نانوتوی صاحب کے نزدیک جھوٹ کو گناہ سمجھتے ہوئے شانِ نبوت کے منافی سمجھنا اور یہ کہنا کہ انبیائے کرام گناہ سے پاک ہیں غلط ہے۔ (نعوذ باللہ)
  ان عبارات کی بنا پر قاسم نانوتوی صاحب پر مفتیانِ دیوبند کی طرف سے فتویٰ جاری ہو چکا ہے کہ ’’ان عبارتوں کا مصنف کافر گم راہ ہے اور اس کا نکاح فاسد ہوا۔‘‘
* (ماہ نامہ تجلی دیوبند، مئی ۱۹۵۶ء، صفحہ۳)
  مولوی حسین احمد مدنی دیوبندی صاحب کے شاگرد اور مولوی شبیر عثمانی دیوبندی صاحب کے بھتیجے مولوی عامر عثمانی فاضل دیوبند عصمت انبیائے کرام کے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ انبیائے کرام کی ’’عصمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انبیائے کرام سے کبھی کسی قسم کا گناہ اور قصور سرزد ہی نہیں ہوتا، ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے۔‘‘
* (تجلیات صحابہ، صفحہ ۶۴۳، مکتبہ الحجاز پاکستان، اے ۲۱۹ بلاک ’’سی‘‘ الحیدری شمالی ناظم آباد کراچی)
ان دلائل سے خیالات کے دھارے صاف ظاہر ہوتے ہیں۔ نہاں خانۂ دل میں جب عصمتِ انبیا سے متعلق ارتکابِ گناہ کا عقیدہ پیوست ہو تو یہی کچھ اُن زبان و قلم سے بھی نمودار ہوگا جو ان اکابرِ دیوبند کے دامنِ عقیدت سے وابستہ ہوں گے۔اِس لیے مولانا سراج احمد قاسمی نے رسول اللہ ﷺ کی توہین میں ’’گناہ‘‘ کا انتساب کیا وہ وراثۃً منتقل ہونے والے عقیدے کی صداے بازگشت معلوم ہوتا ہے؛ پھر ان کی تائید میں ایک دیوبندی عالم نے کئی کئی صفحات لکھ ڈالے اور جو لکھا وہ پڑھ کر حیرت بھی محوِ حیرت ہے؛ لکھتے ہیں:
’’حیرت ہے گستاخ بریلویہ اس موقع پر اپنی خصلت سے مجبور ہو کر ایک بار پھر علماے دیوبند کو گستاخ کہنے کی مکارانہ کوشش کر رہے ہیں، اس موقع پر کیا مثل یاد آگئی،چھاج بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جس میں سو سو چھید۔‘‘ (سوشل میڈیائی پوسٹ سے مقتبس)
سطورِ بالا میں یہ ثابت ہو چکا کہ جس پہلو کو وہ مکارانہ کوشش باور کرا رہے ہیں وہ ان کا عقیدہ بن چکا ہے یعنی’’ توہین رسالت ﷺ‘‘۔ ان کے اکابر کے قلم گستاخی کےقول لکھ لکھ کر بے لگام ہو چکے۔ ان کے اداروں سے چھپنے والی کتابیں چیخ چیخ کر بے ادبی و توہین کا چہرہ نمایاں کر رہی ہیں۔ کتابوں کا یہ انبار انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ گستاخیوں کی قطاریں نظر نہیں آتیں! جرأتوں کا تسلسل دکھائی نہیں پڑتا! سادی سی بات ہے گستاخی کی تائید میں آنے والا مواد بھی گستاخ یا گستاخی کا ترجمان ہی ہوگا!
حقیقت حال یہی ہے کہ عصمتِ انبیا علیہم السلام میں بے ادبی کی فکر ان کی خانہ ساز ہے۔ ان کے گھر کے حوالے نقل کیے گئے۔ ان کے اکابر کا عقیدہ بتا دیا گیا۔ توہین کے بول بول کر اور لکھ لکھ کر بھی محبت رسول ﷺ کا دعویٰ محض دھوکہ ہے۔ چوں کہ مذکورہ حوالوں میں بانی مدرسہ دیوبند نانوتوی صاحب کا بھی اقتباس موجود ہے اِس لیے ان پر مزید چند نکات درج کر دیے جاتے ہیں۔

ایک مثال:
قارئین! رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک سے’’گناہ‘‘ کا انتساب کرنے والے مولوی صاحب کا لاحقہ ’’قاسمی‘‘ ہے جو ان کے فاضل دیوبند ہونے کا غماز ہے؛ تو ان کے رشتۂ فکر کا تجزیہ مدرسۂ دیوبند کے مولانا قاسم نانوتوی کی فکر کی روشنی میں کرتے ہیں۔
اِس سے قبل کہ ہم یہاں مولانا نانوتوی کی عبارت نقل کریں یہ ضرور کہیں گے کہ دیانت و انصاف اور غور و فکر کے ساتھ پیش کردہ اقتباسات کو پڑھیے اور تجزیہ کیجیے۔ عقیدۂ خاتمیت مصطفیٰﷺ میں جرأت کرتے ہوئے مولانا قاسم نانوتوی لکھتے ہیں:
’’بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور رہتا ہے۔‘‘
* (تحذیر الناس ،قاسم نانوتوی، ص۱۸ )
’’بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘
* ( نفس مرجع،ص ۳۴)
’’ عوام کے خیال میں تو رسول ﷲ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں (بالذات) کچھ فضیلت نہیں۔‘‘
* (نفس مرجع ،ص ۴۔۵)
کیا آپ نے کبھی غور کیا اور سوچا کہ کیسا دل آزار لمحہ ہوگا جب اِس طرح کی عبارتیں لکھی گئیں۔ ’’ختم نبوت‘‘ یعنی رسول اللہ ﷺ کا آخری نبی ہونا ’’عوام کا خیال‘‘ بتایا جا رہا ہے۔ تقدم (شانِ اولیت) یا تاخر (ختم نبوت) کی فضیلت کا صاف انکار کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ حیلے بہانے سے عقیدۂ ختم نبوت پر ضرب نہیں؟ وہ کون سے جذبات تھے جن کے دوش پر اِس طرح کی توہین آمیز عبارتیں لکھی گئیں اور اختلافات کا ماحول بنایا گیا! ایسی اختلافی کتابیں شائع کی گئیں! یہ سوچنے کا مقام ہے! یہ وہ مقام نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے! اختلاف ختم کرنے کا اگر معمولی بھی جذبہ موجود ہے تو وجہِ اختلاف کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
’’تحذیرالناس‘‘ کی عبارتوں پر ’’حسام الحرمین‘‘ میں علماے حرمین نے کفر کا فتویٰ صادر کیا۔علماے حرمین مناصبِ جلیلہ کے حامل تھے۔ حرمین کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ ان علما نے تحقیق کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ’’توہین‘‘ سے مملو عبارتوں پر حکم شرع جاری کیا۔اس اعتبار سے شاعر مشرق اقبالؔ کا یہ تاثر حقائق سے قریب معلوم ہوتا ہے:
’’قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں، لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے،اور دونوں اس تحریک کی پیداوار ہیں جسے عرف عام میں -وہابیت- کہا جاتا ہے۔‘‘
* ( اقبالؔ کے حضور، سید نذیر نیازی، اقبال اکادمی کراچی، س ن، ص۲۶۱)
بات جب قادیانی فکر کی چل پڑی ہے تو لگے ہاتھوں مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی کے خیالات بھی دیکھ لیے جائیں-
***

(جاری۔۔۔۔)

 

Leave a Comment