پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے

#1
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں​
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں​

رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں​
سوتے ہیں اُنکے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں​

بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو​
روئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائے کیوں​

یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے ستم​
خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں​

دیکھ کے حضرت غنی پھیل پڑے فقیر بھی​
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں​

جان ہے عشقِ مصطفےٰروز فزوں کرے خدا​
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں​

ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے ناگوار​
چھیڑ کے گُل کو نوبہار خون ہمیں رلائے کیوں​

یا تو یونہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں​
منتِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں​

خوش رہے گُل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب​
میری بلا بھی ذکر پر پھول کے خار کھائے کیوں​

گردِ ملال اگر دُھلے دل کی کلی اگر کِھلے​
برق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں​

جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو​
کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں​

اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی​
میرے کریم پہلے ہی لقمہء تر کھلائے کیوں​

سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے​
جانا ہے سر کو جاچکے دل کو قرار آئے کیوں​

ہے تو رضا نِرا ستم جرم پہ گر لجائیں ہم​
کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں​

اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ​

popular posts

Leave a Comment